رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ سومیہ عاصم کا جوڈشنل ریمانڈمنظور۔جیل بھیج دیا

اسلام آباد: عدالت نے کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد

کیس میں نامزد سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ سومیہ عاصم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی عدالت میں کیس کی سماعت ہوئی جس میں پولیس نے ملزمہ سومیہ کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر اسے عدالت میں پیش کیا جب کہ پولیس نے ملزمہ کے مزید جسمانی ریمانڈ کی بھی استدعا کی۔

جج شائستہ کنڈی نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ سومیہ عاصم کا جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے؟ اس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ سومیہ عاصم سے تفتیش کرنی ہے، کل ہی ضمانت خارج ہوئی ہے۔

تفتیشی افسر کے مؤقف عدالت نے کہا کہ عورت کا جسمانی ریمانڈ کس قانون کے تحت دیا جاتا ہے؟ قتل، ڈکیتی اور خطرناک جرم کے باعث عورت کا جسمانی ریمانڈ ملتا ہے؟ قانون کہتا ہے کہ قتل یا ڈکیتی میں جسمانی ریمانڈ لے سکتے ہیں، آپ دلائل دیں کس بنیاد پر جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟

جج کے استفسار پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ گھناؤنے جرائم پر عورت کا جسمانی ریمانڈ لیاجاسکتاہے، بس اڈے سے ویڈیوز بھی لینی ہیں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ تو سومیہ عاصم کی بہتری کے لیے ہے، کوئی ثبوت دینا چاہتے ہیں تو سومیہ عاصم پولیس کو دے دیں، بس اڈے کی ویڈیو عدالت میں پیش کی گئی ہے جو ریکارڈ کا حصہ بناناہے۔

دلائل سننے کے بعد جج شائستہ کنڈی نے سوال کیا کہ تفتیش کب شروع کرنی ہے؟ آپ کی بات کو دیکھ کر لگ رہا ہےکہ کل ہی تمام تفتیش مکمل ہوچکی، اس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ مواد حاصل کرلیا ہے، ہم نے مزید تفتیش کرنی ہے۔

بعد ازاں جج شائستہ کنڈی نے سومیہ عاصم کو سامنے بلالیا۔

ملزمہ سومیہ عدالت میں روپڑیں

جج کے بلانے پر ملزمہ سومیہ عاصم نے روسٹرم پرآکر کہا کہ میں ہر طرح کی تفتیش میں شامل ہونے کے لیے تیارہوں، مجھے رات کو شامل تفتیش کیاگیا، مجھے رات ساڑھے 11 بجے تک دماغی ٹارچر کیاگیا، میں3 بچوں کی ماں ہوں، مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا جارہا، مجھے گھر لے کر گئے ہیں، کیمرے لگے ہیں، فوٹیجز نکلوا لیں، مجھے وومن اسٹیشن رات 12 بجے لے کر گئے، میں ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں ۔

ملزمہ سومیہ عاصم نے جج سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میرے ساتھ ایسا ظلم نہ کیا جائے، میری بھی اولاد ہے، میڈیا پر باتیں بڑھا چڑھا کر بتائی جارہی ہی، مجھ سےغلطی ہوئی، جب وہ مٹی کھاتی تھی تو اسے بھیج دینا چاہیے تھا، میں نے تمام دستاویزات مہیا کیے ہیں،کچھ نہیں چھپاؤں گی۔

دوران سماعت سومیہ عاصم کمرہ عدالت میں رونے لگیں اور کہا کہ میرا جتنا میڈیا ٹرائل ہوا ہے مجھے خود کشی کرلینی چاہیے۔

جج نے سوال کیا کہ آپ لوگوں کی طرف سے جو پیسے دیے گئے کیا وہ گھر میں ملازمہ تھی، آپ کے گھر تو بچی کام کرتی تھی ناں؟ اس پر وکیل صفائی نے مؤقف اپنا یا کہ ہمارے اوپر الزام ہے کہ کمسن بچی ہماری ملازمہ ہے۔

جج نے سوال کیا کہ کیا بچی رضوانہ کی حالت اب ٹھیک ہے؟کیسی ہیں وہ؟ اس پر ملزمہ کی بہن نے عدالت کو بتایا کہ بہت بہتر حالت ہے، آئی سی یو سے نکال لیا گیاہے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے سومیہ عاصم کو کمرہ عدالت میں اپنی فیملی سے ملاقات کی اجازت دی اور جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

عدالت نے تھوڑی دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ملزمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور 22 اگست کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

بہادر چھوٹا گھونگا – بچوں کی کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے جنگل میں سیمی نام کا ایک گھونگا رہتا تھا۔ سیمی ایک بہت چھوٹا گھونگا تھا، یہاں تک کہ ایک گھونگے کے لیے بھی۔ اسے اکثر جنگل کے دوسرے جانور نظر انداز کر دیتے تھے، جو اس سے بہت بڑے اور تیز تھے۔ لیکن سیمی نے اپنے سائز کو اس کی حوصلہ شکنی نہیں ہونے دی۔ اس نے ایک دن ایک بہادر اور اہم کام کرنے کا خواب دیکھا۔

ایک دن، سیمی نے جانوروں کو جنگل میں آنے والے ایک بڑے خطرے کے بارے میں بات کرتے سنا۔ خطرہ شیطانی چوہوں کا ایک گروہ تھا جو جنگل پر قبضہ کرنے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ تمام جانور بہت خوفزدہ تھے اور نہیں جانتے تھے کہ کیا کریں۔

سیمی جانتا تھا کہ یہ اس کے لیے بہادر بننے اور کچھ اہم کرنے کا موقع ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جا کر دوسرے جانوروں سے بات کرے اور دیکھے کہ آیا وہ کسی طرح کی مدد کر سکتا ہے۔

پہلے تو دوسرے جانور سیمی پر ہنسے جب اس نے انہیں بتایا کہ وہ مدد کرنا چاہتا ہے۔ "تم صرف ایک چھوٹا گھونگا ہو،” انہوں نے کہا۔ "آپ ہماری مدد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟”

لیکن سیمی نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ چوہوں کو شکست دینے میں دوسرے جانوروں کی مدد کرنے جا رہا ہے تو اسے کچھ ہوشیار سوچنا پڑے گا۔ تو وہ خود ہی چلا گیا اور سوچنے لگا۔

کچھ دیر بعد سیمی کو ایک خیال آیا۔ اسے یہ سن کر یاد آیا کہ چوہے سانپوں سے ڈرتے ہیں، اس لیے اس نے خود کو سانپ جیسا دکھانے کی کوشش کی۔

سیمی نے کئی دن رات محنت کی، اپنی تمام تر طاقت اور توانائی استعمال کرکے اپنے لیے ایک بھیس بنایا۔ اس نے اپنے آپ کو پتوں اور ٹہنیوں میں ڈھانپ لیا، خود کو سانپ کی طرح لمبا اور پتلا دکھائی دیا۔

آخر کار سیمی تیار ہو گئی۔ وہ جھاڑیوں سے نکل کر چوہوں کے کیمپ میں چلا گیا۔ سیمی کو دیکھ کر چوہے ڈر گئے، یہ سوچ کر کہ وہ خطرناک سانپ ہے۔ وہ اپنا کیمپ خالی چھوڑ کر جتنی تیزی سے بھاگ سکتے تھے بھاگ گئے۔

سیمی نے یہ کیا تھا! اس نے چوہوں کو بھگا کر جنگل کو بچایا تھا! دوسرے جانور حیران رہ گئے جب انہوں نے دیکھا کہ سیمی نے کیا کیا ہے۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس کی بہادری کا شکریہ ادا کیا۔

اس دن سے، سیمی اب ایک چھوٹا سا گھونگا نہیں رہا تھا۔ وہ ایک ہیرو تھا! دوسرے جانوروں نے اس کی طرف دیکھا اور اس کا احترام کیا۔ سیمی نے ثابت کر دیا تھا کہ چھوٹی اور کمزور مخلوق بھی بڑی کوشش کر سکتی ہے۔

سیمی نے اپنی باقی زندگی جنگل میں گزاری، خوش اور مطمئن۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے کچھ بہادر اور اہم کام کیا ہے، اور اسے ہمیشہ اس بہادر چھوٹے گھونگے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے جنگل کو شیطان چوہوں سے بچایا تھا۔

ختم شد.

Exit mobile version